ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "مستقبل میں ایسے حکمراں سامنے آئیں گے، جن کے کچھ کام تم...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ ہماری حکمرانی کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ جائے گی، جن کے کچھ کام شریعت کے مطابق ہونے کی وجہ سے...
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "آنے والے وقت میں ترجیح دیے جانے کے معاملے اور ایسی باتیں سامن...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے حکمراں ایسے لوگ بن جائیں گے، جو مسلمانوں کے اموال وغیرہ کو اپنی مرضی کے مطاب...
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے با...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ سماج میں رہنے والے ہر مسلمان کی کچھ ذمے داریاں ہيں، جو اسے اٹھانی ہی ہوں گی۔ امام اور امیر اپنے ماتحت ل...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے اللہ! جو شخص میری ا...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس شخص کے لیے بد دعا کی ہے، جو مسلمانوں کی کوئی ذمے داری ہاتھ میں لے، وہ ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی، عام ہو یا خاص...
تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : "دین خیر خواہی کا نام ہے"۔ ہم نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی کا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ ک...
اللہ کے نبی ﷺ نے بتایا کہ دین اخلاص اور صدق کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اس کا پاس و لحاظ اسی طرح رکھنا چاہیے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے۔ کامل طریق...
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "مستقبل میں ایسے حکمراں سامنے آئیں گے، جن کے کچھ کام تمہیں بھلے لگیں گے اور کچھ برے۔ ایسے میں جو ان (کے برے کاموں) کو برا جانے گا، وہ گناہ سے بری رہے گا اور جو ان کے برے کاموں کو برا کہے گا، وہ سلامت رہے گا۔ لیکن جو (ان کے برے کاموں پر) مطمئن رہے گا اور ان کی پیروی کرے گا، (وہ ہلاکت میں پڑے گا۔)" لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : "نہیں، جب تک کہ وہ نماڑ پڑھتے رہیں۔"
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "آنے والے وقت میں ترجیح دیے جانے کے معاملے اور ایسی باتیں سامنے آئیں گی، جو تمھیں بری لگیں گی۔" صحابہ نے کہا : اے اللہ کے رسول! تو آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہيں؟ فرمایا : "تم اپنی ذمے داریاں ادا کرتے رہنا اور اپنا حق اللہ سے مانگنا۔"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنے ماتحتوں کے بارے میں جواب دہ ہے؛ چنانچہ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کى ذمہ دار ہے اور اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمے دار ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس طرح تم میں سے ہر شخص ذمے دار ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا“۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔
تمیم داری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : "دین خیر خواہی کا نام ہے"۔ ہم نے عرض کیا: کس کی خیر خواہی کا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلم حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔“
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "وہی تو ہے جس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں، وہی کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات۔ پھر جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے حقیقی معنی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ہاں جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے۔ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق تو صرف دانش مند ہی حاصل کرتے ہیں۔" [آل عمران: 7]. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو قرآن کریم کی متشابہ آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، تو سمجھ لو کہ یہی وہ لوگ ہیں، جن کا نام اللہ تعالٰی نے اصحاب زیغ (کجی والے) رکھا ہے۔ ایسے لوگوں سے اجتناب کرو۔‘‘
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے, وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : "تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے"۔
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’اللہ کے حدود پر قائم رہنے والوں اور ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی میں جگہ کی تعیین کے لیے قرعہ اندازی کی، جس کے نتیجہ میں کچھ لوگوں نے کشتی کے اوپر والے حصے میں اور کچھ لوگوں نے نیچے والے حصے میں جگہ حاصل کی۔ جو لوگ نیچے والے حصے میں تھے، انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا۔ لہذا انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کر لیں، تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں ۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے، تو سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں گے (اور انہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے) تو یہ خود بھی بچ جائیں گے اور باقی لوگ بھی بچ جائیں گے"۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جس نے کسی ہدایت کی طرف بُلایا، اسے اس کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور اس سے پیروی کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جس نے کسی گمراہی کی طرف بلایا اُس کے اوپر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہوگا اور اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔"
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : ایک شخص اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : میری سواری کا جانور ہلاک ہو چکا ہے۔ لہذا مجھے سواری کے لیے ایک جانور عطا کیجیے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "میرے پاس جانور نہيں ہے۔" اتنے میں ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں اسے ایک شخص کے بارے میں بتا سکتا ہوں، جو اسے سواری کے لیے جانور دے دے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "جس نے نیکی کی طرف رہنمائی کی تو اس کو اس نیکی کا کام کرنے والے کے برابر اجر ملے گا۔"
سهل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”میں یہ جھنڈا کل ایسے آدمی کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالی فتح عطا فرمائے گا۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ چنانچہ لوگوں نے رات یہ بحث کرتے ہوۓ گزاری کہ کون وہ (خوش نصیب) ہوگا، جسے ان میں سے جھنڈا دیا جاۓ گا۔ جب لوگوں نے صبح کی تو اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے۔ سب کے سب امید رکھتے تھے کہ انھیں جھنڈا دیا جائے گا۔ آپ ﷺ نے پو چھا : ’’علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟‘‘ اللہ کے رسول کو بتلایا گیا کہ ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ان کو بلا بھیجو۔‘‘ چنانچہ وہ لائے گئے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب مبارک لگایا اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تو وہ اس طرح ٹھیک ہوگئے، جیسے انھیں کوئی درد تھا ہی نہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں جھنڈا عطا فرمایا۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں ان سے لڑوں یہاں تک کہ وہ ہم جیسے (مسلمان) ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’(نہیں بلکہ) آرام و سکون کے ساتھ چلو، یہاں تک کہ تم ان کے میدان میں پڑاؤ ڈالو، پھر ان کو اسلام کی دعوت دو اور انھیں بتلاؤ کہ تم پر اللہ کے یہ یہ حق ہیں۔ اللہ کی قسم! تمھارے ذریعے سے کسی ایک آدمی کا ہدایت یافتہ ہو جانا تمھارے لیے (بیش قیمت) سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ”جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے“۔