- یہ حدیث محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اللہ کے نبی ہونے کی ایک اہم دلیل ہے، کیوں اس میں آپ نے اپنی امت کے اندر ایک بات پیش آنے کی بات کہی اور وہ بات بالکل اسی طرح پیش آبھی گئی۔
- جس شخص پر کوئی مصیبت آنے والی ہو، اسے اس مصیبت کے بارے میں پہلے ہی بتا دینا جائز ہے، تاکہ وہ اس کے لیے تیار رہے اور جب مصیبت آئے تو صبر سے کام لے اور اسے ثواب کا ذریعہ سمجھے۔
- کتاب و سنت پر مضبوطی سے قائم رہنا فتنے و اختلاف سے نکلنے کا راستہ ہے۔
- حکمرانوں کی باتوں کو بھلے طریقے سے سننے اور ماننے اور ان کے خلاف بغاوت نہ کرنے کی ترغیب، اگرچہ ان کی جانب سے کچھ ظلم بھی ہو رہا ہو۔
- فتنوں کے وقت سنت کى اتباع کرنا اور حکمت سے کام لینا چاہیے۔
- انسان کو اپنے اوپر واجب حقوق کو ادا کرنا چاہیے، اگرچہ اس کے اوپر تھوڑا بہت ظلم ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔
- اس حدیث سے اس شرعی قاعدے کی دلیل ملتی ہے کہ جب دو برائیاں سامنے ہوں، تو ان میں سے زیادہ ہلکی برائی کا انتخاب کیا جائے گا۔ یا پھر جب دو نقصان دہ چیزیں سامنے ہوں، تو ان میں سے کم نقصان دہ چیز کا انتخاب کیا جائے گا۔