عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی ملے...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ سارے اعمال کا اعتبار نیت کی بنیاد پر ہے۔ یہ حکم عبادات اور معاملات جیسے سبھی اعمال کے لیے عام ہے۔ جو شخ...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی، جو اس کا حصہ نہیں ہے، تو وہ قا...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ جس نے دین کے اندر ایسی کوئی نئی چیز ایجاد کی یا ایسا کوئی نیا کام کیا، جو قرآن اور حدیث سے ثابت نہ ہو،...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت...
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ جبریل علیہ السلام صحابۂ کرام کے پاس ایک اجنبی شخص کی شکل اختیار کر کے آئے۔ ان کے کچھ صفات اس طرح تھے کہ ان کے...
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گو...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کو پانچ ارکان پر کھڑی ایک عمارت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اسلام کے باقی کام اس عمارت کے تتمہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔...
معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا، جس کا نام عفیر تھا۔ اسی دوران آپ نے فرمایا: ’’...
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے اور اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے۔ بندوں پر اللہ کا حق یہ کہ وہ صر...

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی ملے گا، جس کی اس نے نیت کی۔ چنانچہ جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہے اور جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہو، تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے ہے، جس کے لیے اس نے ہجرت کی"۔جب کہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے : "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو وہی ملے گا، جس کی اس نے نیت کی۔"

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی، جو اس کا حصہ نہیں ہے، تو وہ قابل قبول نہیں ہے“۔ ایک اور روایت میں ہے: ”جس نے کوئی ایسا عمل کیا، جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے، تو وہ قابل قبول نہيں ہے“۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا۔ اس کے کپڑے بہت سفید اور بال بہت کالے تھے۔ اس پر سفر کے آثار بھی نہیں دکھائی دے رہے تھے اور ہم میں سے کوئی اسے جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر بیٹھا۔ اپنے گھٹنے کو آپ کے گھٹنے سے لگا لیا اور اپنی ہتھیلیاں اپنى رانوں پر رکھی۔ پھر بولا : اے محمد (ﷺ)! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد (ﷺ) اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور اگر اللہ کے گھر تک جانے کی استطاعت ہو، تو اس کا حج کرو۔" یہ سن کر وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا۔ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور پھر خود آپ کی تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر بولا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : "ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور ہر اچھی و بری تقدیر پر ایمان لاؤ"۔ وہ بولا : آپ نے سچ فرمایا ۔ پھر بولا : مجھے احسان کے بارے میں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "اللہ کی عبادت اس طرح کرو، گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، تو وہ توتمھیں دیکھ رہا ہے"۔ وہ کہنے لگا: اب مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "جس سے سوال کیا جا رہا ہے، وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا"۔ اس نے کہا : اچھا تو مجھے اس کی نشانیاں بتائیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "(نشانیاں یہ ہیں کہ) لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔ تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، مفلس اور بکریاں چرانے والے لوگ محلات کرنے میں ایک دوسرے پر فخر کیا کریں گے"۔ اس کے بعد وہ چلا گیا۔ میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا : "اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا؟" میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں"۔ آپ ﷺ نے فرمایا : "وہ جبریل (علیہ السلام) تھے۔ وہ تمھیں تمھارے دین کے معاملات سکھانے آئے تھے"۔

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، خانۂ کعبہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“

معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اللہ کے نبی ﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا، جس کا نام عفیر تھا۔ اسی دوران آپ نے فرمایا: ’’اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ تعالیٰ پر کیا حق ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراتا ہو، اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہ دے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو، ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائیں گے۔‘‘

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے، جب کہ معاذ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھے، فرمایا : "اے معاذ!" انھوں نے جواب دیا : اے اللہ کے رسول! حاضر ہوں۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا : "اے معاذ!" انھوں نے جواب دیا : حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے اس طرح تین بار خطاب کیا۔ پھر فرمایا: ”جو بندہ سچے دل سے یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں، اسے اللہ جہنم پر حرام کر دیتا ہے“۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی اطلاع نہ دے دوں، تا کہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تب وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے“۔ چنانچہ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت (کتمانِ علم کے) گناہ سے بچنے کے لیے اس حدیث کو بیان کر دیا۔

طارق بن اشیم اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : "جس نے 'لا الہ الا اللہ' کہا اور اللہ کے سوا جن چیزوں کی پوجا کی جاتی ہے، ان کا انکار کیا، تو اس کا مال اور خون حرام ہو گیا اور اس کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔"

جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: اے اللہ کے رسول ! واجب کرنے والی دو باتیں کون سی ہیں؟ آپ نے جواب دیا: ’’جو کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرتا ہوا مرا، وہ جنت میں داخل ہو گا، اور جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہراتے ہوئے مرا، و ہ جہنم میں داخل ہو گا۔‘‘

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بات کہی ہے اور میں نے ایک اور بات کہی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "”جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی پکارتا رہا (اللہ کا شریک و ہمسر ٹھہراتا رہا) ہو، تو وہ جہنم میں داخل گا“۔ جب کہ میں کہتا ہوں : جو شخص اس حال میں مرے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارتا رہا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : رسول اللہ ﷺ نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا: "تم اہلِ کتاب کی ایک قوم کے پاس جارہے ہو۔ تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی طرف دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے، جو ان کے مال دار لوگوں سے لے کر انہی میں سے فقیر لوگوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان جائیں تو ان کے عمدہ اور قیمتی اموال لینے سے پرہیز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا، کیوں کہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا"۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : کسی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن آپ کی شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ کسے حاصل ہوگی؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اے ابو ہریرہ! تمھاری حرصِ حدیث دیکھ کر مجھے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مجھ سے یہ حدیث تم سے پہلے کوئی نہیں پوچھے گا۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اسے حاصل ہو گی، جس نے کلمہ «لا إله إلا الله» خلوص دل سے کہا“۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”ایمان کی تہتّر سے زیادہ -یا ترسٹھ سے زیادہ- شاخیں ہیں، جن میں سے سب سے افضل شاخ لا الہ الا اللہ کہنا ہے اور سب سے کم مرتبہ والی شاخ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے“۔