عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور آپ اپنے رب پاک سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”ال...
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی اور پھر فرشتوں کو بتایا کہ ان کو کیسے لکھا جائے۔ لہذا...
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانۂ جاہلیت میں کیے ہیں، کیا ان کا بھی مؤاخذہ ہم سے ہوگا؟ آپ ﷺ ن...
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے کی فضیلت بیان کر رہے ہیں۔ جو شخص اسلام لائے اور پھر اس کا اسلام ٹھیک رہے اور وہ صدق واخلاص سے متصف...
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ مشرک، جنھوں نے بہت سے لوگوں کی جانیں لی تھیں اور زنا میں بھی بہت زیادہ ملوث رہ چکے تھے، اللہ کے رسول...
کچھ مشرک اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے، جو قتل و زنا میں بہت زیادہ ملوث رہ چکے تھے اور آپ سے کہنے لگے: آپ ہمیں جس مذہب اسلام اور اس کی تع...
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کےرسول ﷺ ! میں زمانۂ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یا غلام...
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ وضاحت فرمائی ہے کہ کافر جب اسلام لاتا ہے، تو اسلام لانے سے قبل زمانۂ جاہلیت میں جو نیک اعمال اس نے کی...
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالیٰ کسی مؤمن کے ساتھ ایک نیکی کے معاملے میں بھی ظلم نہیں فر...
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں مؤمنوں پر اللہ کے فضل واحسان اور کافروں کے تئیں اللہ کے عدل وانصاف کو بیان فرمایا ہے۔ جہاں تک مؤمن کی بات ہے، تو...

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں اور آپ اپنے رب پاک سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں اور انھیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ چنانچہ جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا، تو اس کےکھاتے میں اللہ تعالی اپنے ہاں ایک مکمل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنے یہاں دس نیکیوں سے سات سو گنا تک، بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اس کے برخلاف جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کیا، تو اللہ تعالی اپنے یہاں اسے ایک پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کرنے کے بعد اس نے اس کا ارتکاب بھی کر لیا، تو اللہ تعالی اسے صرف ایک برائی ہی لکھتا ہے“۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہم نے جو گناہ زمانۂ جاہلیت میں کیے ہیں، کیا ان کا بھی مؤاخذہ ہم سے ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "جس نے اسلام لانے کے بعد اچھے عمل کیے، اس کا ان اعمال پر مؤاخذہ نہیں ہو گا جو اس نے جاہلیت میں کیے اور جس نے اسلام میں برے کام کیے، وہ اگلے اور پچھلے دونوں طرح کے عملوں پر پکڑا جائے گا"۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ مشرک، جنھوں نے بہت سے لوگوں کی جانیں لی تھیں اور زنا میں بھی بہت زیادہ ملوث رہ چکے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں اور جن باتوں کی دعوت دے رہے ہیں، سب ٹھیک ہیں۔ اگر آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ ہم نے جو گناہ کیے ہیں، ان کا کفارہ بھی ہے، (تو بہتر ہوگا)۔ چنانچہ یہ آیت کریمہ اتری : {وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ} (اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہيں پکارتے اور نہ اس نفس کو قتل کرتےہيں، جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے، مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔) [سورہ الفرقان : 66] اور یہ آیت کریمہ بھی اتری : {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ} (اے نبی! آپ میرے ان بندوں سے کہہ دیں، جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیے ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔) [سورہ زمر : 53]

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کےرسول ﷺ ! میں زمانۂ جاہلیت میں عبادت کی نیت سے جو صدقہ دیتا تھا یا غلام آزاد کرتا اور صلہ رحمی کرتا تھا، کیا ان کا مجھے کوئی اجر ملے گا؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم ان نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو۔‘‘

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالیٰ کسی مؤمن کے ساتھ ایک نیکی کے معاملے میں بھی ظلم نہیں فرماتا۔ اس کے بدلے اسے دنیا میں بھی دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کی جزا دی جاتی ہے۔ رہا کافر، تو اسے نیکیوں کے بدلے میں، جو اس نے دنیا میں اللہ کے لیے کی ہوتی ہیں، اسی دنیا میں کھلا (پلا) دیا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی، جس کی اسے جزا دی جائے"۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : "اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا، میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا، چاہے وہ جتنے بھی ہوں، میں اس کی پرواہ نہيں کروں گا۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے بلندی کے برابر ہو جائيں، پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے، تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہيں ہے۔ اے ابن آدم! اگر تو میرے پاس زمین کے برابر گناہ لے کر اس حال میں آئے کہ تونے کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرایا ہو، تو میں تیرے پاس زمین کے برابر بخشش لے کر آؤں گا۔"

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے رب تبارک و تعالی سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: "ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر بول اٹھا : اے اللہ! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ اس بندے نے پھر دوبارہ گناہ کیا اور بول پڑا کہ اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا : میرے بندے نے گناہ کیا اور پھر اس کے اس یقین نے انگڑائی لی کہ اس کا ایک رب ہے، جو گناہ کو بخش بھی دیتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ تم جو چاہے کرو، میں نے تم کو معاف کر دیا۔"

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : میں ایک ایسا شخص تھا کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی حدیث سنتا، تو اس سے اللہ مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہتا، پہنچاتا۔ جب آپ کا کوئی صحابی مجھے کوئی حدیث سناتا، تو میں اسے قسم کھانے کو کہتا۔ جب وہ میرے کہنے پر قسم کھا لیتا، تو میں اس کی بات کی تصدیق کرتا۔ مجھے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے اور انھوں نے سچ کہا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا ہے : "کوئی بھی بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے، پھر کھڑے ہوکر طہارت حاصل کرتا ہے، پھر نماز پڑھتا ہے، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے، تو اللہ اس کی مغفرت کر دیتا ہے"۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : {وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ} (اور جب کبھی وہ کوئی بڑا گناہ کر جائیں یا اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پھر اللہ سے گناہوں کی مغفرت طلب کرتے ہیں) (سورہ آل عمران : 135)

ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل رات میں اپنا ہاتھ پسارتا ہے، تاکہ دن کا گنہ گار توبہ کر لے اور دن میں اپنا ہاتھ پسارتا ہے، تاکہ رات کا گنہ گار توبہ کرلے، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جا ئے۔"

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات جب کہ رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جا تا ہے، آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ میں اسے دوں؟ ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟"

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا -اور نعمان نے اپنی انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا-: ”یقیناً حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں، جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ چنانچہ جو شخص شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں پڑ جائےگا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراہ گاہ کے اردگرد جانور چراتا ہے۔ ایسے میں اس بات کا امکان رہتا ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لے۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی)۔ آگاہ رہو! اللہ کی چراگاہ اس کى حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب وہ درست ہو جاتا ہے، تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ جان لو! وہ دل ہے۔“

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "تم لوگ میرے صحابہ کو گالی مت دو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے، تب بھی ان میں سے کسی کے ایک مد یا آدھا مد خرچ کرنے کے برابر ثواب حاصل نہیں کر سکتا"۔