”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔...
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے اس گھر میں فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے اللہ! جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے، پھر وہ ان پر سختی کرے، تو تو بھی اس پر سختی فرما- اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنےِ، پھر ان کے ساتھ نرمی کرے، تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما“۔
اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
شرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس شخص کے لیے بد دعا کی ہے، جو مسلمانوں کی کوئی ذمے داری ہاتھ میں لے، وہ ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی، عام ہو یا خاص، پھر لوگوں کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرنے کی بجائے ان کو مشقت میں ڈالے۔ اس طرح کے آدمی کے حق میں آپ نے بد دعا یہ کی ہے کہ اللہ اسے بھی مشقت میں ڈالے، تاکہ اسے اسی نوعیت کا بدلہ مل جائے، جس نوعیت کا اس کا عمل رہا ہے۔
جب کہ ذمے داری ملنے کے بعد لوگوں کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرنے والے اور ان کے ساتھ آسانی کرنے والے کے حق میں یہ دعا کی ہے کہ اللہ اس کے ساتھ نرمی بھرا سلوک کرے اور اس کا کام آسان کر دے۔
Hadeeth benefits
مسلمانوں کی کوئی ذمے داری ہاتھ میں لینے والے پر جہاں تک ہو سکے نرمی بھرا سلوک کرنا واجب ہے۔
اللہ بندے کو جزا اسی نوعیت کی دیتا ہے، جس نوعیت کا اس کا عمل رہا ہوتا ہے۔
نرمی اور سختی کی کسوٹی قرآن اور حدیث ہے۔
Share
Use the QR code to easily share the message of Islam with others