- اس حدیث مین پانچ اصناف کا ذکر ہے۔ سونا، چاندی، گیہوں، جو اور کھجور۔ جب بیع میں دونوں جانب ایک ہی صنف کی چيز ہو، تو اس کے صحیح ہونے کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ عقد کی مجلس ہی میں دونوں جانب قبضہ مکمل ہو جائے اور دوسری یہ کہ وزن برابر ہو۔ اگر ایسا نہيں ہوتا، تو اس میں "ربا الفضل" آ جائے گا۔ لیکن اگر خرید و فروخت کی صنف الگ الگ ہو جائے، تو عقد کے صحیح ہونے کے لیے ایک ہی شرط ہوگی۔ وہ ہے، مجلس عقد ہی میں قیمت پر قبضہ کر لینا۔ اگر یہ شرط پوری نہیں ہوتی، تو اس میں "ربا النسيئة" آ جائے گا۔
- عقد کی مجلس سے مراد خرید و فروخت کی جگہ ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دونوں بیٹھے ہوں، چل رہے ہوں یا سوار ہوں۔ اسی طرح الگ ہونے سے مراد وہی ہے، جسے عرف عام میں الگ ہونا مانا جائے۔
- اس حدیث میں آئی ہوئی ممانعت کے دائرے میں ہر طرح کا سونا آ جاتا ہے۔ ڈھلا ہوا ہو کہ غیر ڈھلا ہو۔ ایسے ہی ہر طرح کی چاندی بھی آ جاتی ہے۔ ڈھلی ہوئی ہو کہ غیر ڈھلی ہوئی۔
- دور حاضر کی کرنسیوں کو آپس میں بدلتے وقت اسی بات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، جس کا خیال سونے کو چاندی سے بدلتے وقت رکھنا پڑتا ہے۔ یعنی طرفین کی آپسی رضامندی کے مطابق کمی بیشی ہو تو جائز ہے، لیکن بیع کی مجلس میں دونوں جانب قبضہ ضروری ہے۔ ایسا نہيں ہو تو اس میں سود در آئے گا اور بیع باطل ہو جائے گی۔
- سودی معاملات جائز نہیں ہیں اور اس طرح کا عقد باطل ہے، چاہے دونوں طرف سے رضامندی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ اسلام انسانیت اور سماج کے حق کی حفاظت کرتا ہے، خواہ وہ اپنا حق چھوڑنا بھی کیوں نہ چاہے۔
- غلط کام ہوتا ہوا دیکھ کر منع کرنا چاہیے۔ طاقت ہو تو روکنا بھی چاہیے۔
- غلط کام سے منع کرتے وقت دلیل بھی پیش کر دینی چاہیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہی کر کے دکھایا۔