- ہمیشہ ظاہری وباطنی ہر طرح سے اللہ تعالی کا ذکر کرتے رہنا عظیم ترین تقرب اور اللہ تعالی کے نزدیک مفید ترین عبادت ہے۔
- تمام اعمال اللہ کے ذکر کے لیے مشروع کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "نماز میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔" اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "خانۂ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مشروع کی گئی ہے۔" اس حدیث کو امام ابو داود اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
- عز بن عبد السلام اپنے قواعد میں کہتے ہيں: یہ حدیث ان نصوص میں سے ہے، جو دلالت کرتے ہيں کہ ثواب تمام عبادتوں میں تکان کے بہ قدر ہی نہیں ملتا۔ کبھی کبھی اللہ تھوڑے اعمال میں کثیر اعمال سے زیادہ ثواب عطا کرتا ہے۔ ثواب اعمال کے شرف ومنزلت میں رتبوں کے تفاوت کے اعتبار سے ملتا ہے۔
- مناوی فیض القدیر میں کہتے ہیں : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ذکر ان لوگوں کے حق میں افضل تھا، جو اس وقت آپ کے سامنے موجود تھے۔ سامنے اگر ایسے بہادر لوگ موجود ہوتے، جو میدان جنگ میں پہنچ کر اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مفید ہوتے، تو انھیں جہاد افضل عمل بتایا جاتا۔ اگر ایسے مال دار لوگ موجود ہوتے، جن کے مال سے غریبوں کو فائدہ ہوتا، تو انھیں افضل عمل صدقہ بتایا جاتا۔ حج کرنے کی طاقت رکھنے والے لوگ موجود ہوتے، تو ان کو حج افضل عمل بتایا جاتا۔ اگر ایسے لوگ ہوتے، جن کے والدین موجود ہوتے، تو انھیں ان کی خدمت کرنا افضل عمل بتایا جاتا۔ اس سلسلے میں وارد مختلف حدیثوں کے درمیان تطبیق دینے کا یہی طریقہ ہے۔
- کامل ترین ذکر وہ ہے، جو زبان سے کیا جائے اور ساتھ میں دل غور و فکر کرے، پھر اس ذکر کا درجہ آتا ہے، جو دل سے کیا جائے، جیسے غور و فکر اور پھر وہ ذکر جو صرف زبان سے کیا جائے۔ بہر صورت ذکر ثواب کا کام ہے۔
- ایک مسلمان کو مختلف اوقات کے اذکار، جیسے صبح و شام کے اذکار، مسجد، گھر اور بیت الخلا میں داخل ہونے اور نکلنے وغیرہ کے اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے، جن کا اہتمام انسان کو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والوں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔