- نفاق کی کچھ علامتوں کا بیان، تاکہ ان میں واقع ہونے سے خوف دلا کر خبردار کیا جا سکے۔
- حدیث کا مقصود یہ ہے کہ یہ خصائل نفاق کے خصائل ہيں اور ان کا حامل شخص ان خصائل میں منافقوں کے مشابہ اور ان کے اخلاق کا حامل ہے۔ مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ایسا منافق ہے، جو مسلمان ہونے کا دکھاوا کرتا ہو اور دل میں کفر چھپائے رکھتا ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس شخص پر محمول ہے، جس پر یہ خصائل حاوی ہو جائيں اور وہ ان خصلتوں کو معمولی سمجھنے لگے۔ کیوں کہ اس طرح کا شخص عام طور پر بدعقیدہ بھی ہوا کرتا ہے۔
- غزالی کہتے ہیں : دراصل دین داری کا انحصار تین چیزوں پر ہے : قول، فعل اور نیت۔ یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے قول میں بگاڑ کا اشارہ جھوٹ کے ذریعے، فعل میں بگاڑ کا اشارہ خیانت کے ذریعے اور نیت میں بگاڑ کا اشارہ وعدہ خلافی کے ذریعے فرمایا۔ کیوں کہ وعدہ خلافی اسی وقت قادح ہے، جب وعدہ کرتے وقت ہی وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت کر لی جائے۔ اس کے برخلاف اگر کسی نے وعدہ پورا کرنے کی نیت رکھی، لیکن کوئی رکاوٹ حائل ہو گئی اور وعدہ پورا نہیں کر سکا، اس کا یہ عمل نفاق کے دائرے میں نہيں آئے گا۔
- نفاق کی دو قسمیں ہیں : ایک اعتقادی نفاق، جو انسان کو ایمان کے دائرے سے باہر نکال دیتا ہے۔ اعتقادی نفاق نام ہے اسلام کا اظہار کرنے اور اندر کفر چھپائے رکھنے کا۔ دوسرا عملی نفاق، جو انسان کو ایمان کے دائرے سے باہر تو نہیں نکالتا، لیکن ہے کبیرہ گناہ۔
- ابن حجر کہتے ہیں : علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص اپنے دل اور زبان سے تصدیق کرے اور اس کے باوجود یہ کام کرے، تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ اسے ایسا منافق بھی نہيں گردانا جائے گا، جس کا ٹھکانہ سدا کے لیے جہنم ہو۔
- نووی کہتے ہیں : علما کی ایک جماعت کہتی ہے : اس سے مراد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد کے منافق ہيں، جنھوں نے مومن ہونے کی بات کہہ کر جھوٹ بولا، دین کی امانت اٹھائی اور خیانت کی، دین پر قائم رہنے اور اس کی مدد کرنے کا وعدہ کر کے اسے توڑ ڈالا اور اپنے جھگڑوں میں بد زبانی کا مظاہرہ کیا۔