- انسان کو ایسے کام میں مشغول ہونا چاہیے، جو زیادہ اہم ہو اور جس کی ضرورت ہو۔ ایسے کاموں سے دامن کش رہنا چاہیے، جن کی فی الحال ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو چیز پیش نہ آئی ہو، اس کے بارے میں مسئلہ بھی نہيں پوچھنا چاہیے۔
- مسائل کو پیچیدہ کر دینے والے اور شبہات کا دروازہ کھولنے والے ایسے سوالات کرنا حرام ہے، جو کثرت اختلاف کا سبب بنتے ہوں۔
- تمام منہیات کو چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ انھیں چھوڑنے میں کوئی مشقت نہيں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے نہی عام ہے۔
- جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، انھیں کرنے کا حکم استطاعت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ انھیں کرنے میں کبھی مشقت ہوتی ہے یا انہیں کبھی کرنے سے انسان عاجز ہوتا ہے ہے۔
- کثرت سوال کی ممانعت۔ علما نے سوال کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی قسم میں دین کے ضروری مسائل سے جڑے ہوئے ایسے سوالات آتے ہیں، جن کا مقصد سیکھنا ہو۔ اس طرح کا سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور صحابہ کے سوالات اسی نوع کے ہوا کرتے تھے۔ دوسری قسم میں ایسے سوالات آتے ہیں، جو تعنت اور تکلف کے طور پر کیے جائيں۔ اس طرح کا سوال کرنا منع ہے۔
- اس امّت کو سابقہ قوموں کی طرح اپنے نبیﷺ کی مخالفت میں پڑنے سے متنبہ کیا گیا ہے۔
- کثرت سے غیر ضروری سوال اور انبیا سے اختلاف ہلاکت کا سبب ہے۔ خاص طور سے ان امور سے متعلق، جن تک پہنچنا ممکن نہ ہو۔ جیسے غیب کے مسائل، جنھیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور قیامت کے دن کے احوال۔
- مشکل مسائل کے بارے میں پوچھنے کی ممانعت۔ اوزاعی کہتے ہيں : جب اللہ بندے کو علم کی برکت سے محروم کرنا چاہتا ہے، تو اس کی زبان پر بہت ساری غلط باتیں ڈال دیتا ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو آپ ىسب سے کم علم پائیں گے۔ ابن وہب کہتے ہيں: میں نے امام مالک کو کہتے ہوئے سنا: علمی جھگڑے آدمی کے دل سے علم کا نور لے جاتے ہیں۔